۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
بھیک پور، ہندوستان میں ٢٠٠سوسالہ قدیم تعزیہ امام حسین (ع)

حوزہ/ بھیک پور میں ١٠محرم الحرام کو ایک بہت بڑا تعزیہ امام حسین اٹھایا جاتا ہے جسے ایشیا کا پہلا تعزیہ کہا جاتا ہے اکثر ممالک اس تعزیہ کو اٹھاتے ہوئے نشر کرتے ہیں،اس تعزیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ شیعوں کے علاوہ، اہلسنت، ہندو اور اکثرطفرقے کے لوگ اسے کربلا تک لے جانے کے لئے انتھک کوشیشیں کیا کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام  حسین علیہ السلام  کے روضہ مبارک کی شبیہہ تعزیہ کو غم اور  سوگ کی علامت کے طور پر جلوس کی شکل میں نکالتے ہیں۔ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ان ممالک میں لوگ بہت ہی جوش و خروش کے ساتھ تعزیہ بناتے ہیں۔ خوبصورت اور رنگین کاغذوں اور پنیوں کو بانس پر لپیٹا جاتا ہے۔اسی ایک تعزیہ کی قسم بہار کے بھیک پور علاقے میں ٢٠٠سوسالہ قدیم تعزیہ امام حسین (ع) ہے جو بہت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی بھیک پوری کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان ملک کے بہاراشٹیٹ کے مجھریا جنگ میں جب سید مبارک حسین شہید ہوئے تو سر معرکہ میں گرا۔دھڑ اور تلوار کی گرفت گھوڑے پر باقی رہی۔ دس کلومیٹر کے فاصلہ پر چین پور میں لبِ دریا دھڑ بھی بھی گرا اور وفادار گھوڑے نے بھی دم توڑ دیا۔ سید مبارک حسین وہیں دفن ہوئے اور گھوڑے کو بھی ان کے بغل میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس جگہ کا نام مبارک پور دیا گیا جو متصل چین پور ہے۔

چین پور کے ذی وقار، با ثروت غیر مسلم اہل علم رئیس کی نگاہ میں سید مبارک حسین کا بلند مقام تھا۔ وہ عقیدت کے تحت قبر پر آتے اور منت مانگتے ہیں۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی۔ انھوں نے قبر پر مزار بنوا دیا۔ دور حاضر میں یہ ایک خوبصورت روضہ ہے جو لب دریا بلندی پر واقع ہے۔ ہر قوم و ملت کے لوگ فاتحہ کرانے آتے ہیں۔ منتیں مانگتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے۔ یہ روضہ سید مبارک دادا کے نام سے مشہور ہے۔ سید مبارک حسین کے روضے کے پاس ایک ندی ہے جسکی وجہ سے جگہ نہ رہنے کی وجہ سے ندی کوپارکرتے ہوبھیک پوربستی بسائی گئی ، جسے سید مبارک حسین کے پوتے سید بھیک حسین نے اپنے نام پراس جگہ کانام رکھا ،،بھیک پوربستی کی سرحد سے ہمکنار ہوتی ہوئی رواں ندی، لہلہاتے کھیت، سبزہ زار خطے میں طیور کے چہچہانے، آم کے باغات، کھلے میدان میں چرتے ہوئے مویشی جن کے گلوں میں ٹنگے ہوئے گھنگرو سے میٹھی آواز کا پیدا ہونا وغیرہ وغیرہ سے سبھی لطف اندوز ہوتے۔

بستی کی سرحد پہ ہمیشہ نور پھیلا رہتا ہے۔ ایک جانب کربلا کے سنہرے گنبد پر لہراتا ہوا پرچم حضرت عباس، اس کے شمال میں عید گاہ، جامع مسجد اور بڑا امام باڑہ ہے جو اس بستی کی زینت ہیں۔ ان مقدس مقامات سے ملا ہوا شہر خموشاں کا وسیع میدان ہے جو خوابیدہ ذہنوں کو بیدار کرتا رہتا ہے کہ جس مقصد سے خدا نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر یہاں آؤ تاکہ ہماری آغوش میں آرام کی جگہ پاؤ۔بستی میں ایام عزا کے موقع پر حسینی ماحول کا چھایا رہنا، قومی ہم آہنگی سے لبریز فضاء دلکش منظر پیش کرتا ہے۔بھیک پور بستی کی خاک سے ایسے ایسے علمائے کرام و اطبائے عظام پیدا ہوئے جو مشاہیر زمانہ ہوئے۔اس بستی میں کسی وقت جید پچاسوں عالم دین موجودتھے جسے سن ١٩٥٠عیسوی میں زحمت کش ایک بزرگ عالم دین مولانا سید حفاظت حسین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ فرماتے ہیں کہ ''اے بھیک پورتوکبھی دارالسلام تھا''۔

۱۴سال سے اس علاقے میں حوزہ علمیہ آیة اللہ خامنہ ای،بھیک پورکے توسط سے پورے سال فعالیت کے ساتھ ساتھ فرھنگ عاشورا کو رائیج کرنا،فرھنگی امور،ثقافتی رنگ ڈھنگ عاشورائی توانائی اورجگہ جگہ مولاناحضرات مبلغین حضرات سے پیغام کربلاکونشرکرنے کی وجہ سے ابتک ہزاروں مولانا اور برجستہ شخصیتوں کے رفت و آمد پر مولانا موصوف کے بلند افکار رکھنے والے نیک اور صالح بیٹے محترم سیدآل ابراہیم حسین رضوی فرماتے ہیں ہمارے والدمحترم ہوتے توکہتے!'' اے بھیک پور تو ہنوز دارالسلام ہے'' سرزمین بھیک پور کی برجستہ شخصیتوں میں نام نامی قدوة العارفین عالیجناب سید علی صاحب قبلہ، مجتہد اول بہارہیں یعنی بہارکی سرزمین پرسب سے پہلے مجتھدسید علی صاحب قبلہ طاب ثراہ (بھیک پوری)ہیں، آپ تقریباڈھیڑسوسالہ قدیم مجتھدہیں،خداوند عالم آپکی روح کوشادرکھے ،اس بستی کی آپکے بعدایک دوسری شخصیت جنہیں مولانا سید محمد مہدی صاحب قبلہ وکعبہ کے نام سے جاناجاتا ہے آپکی ولادت: ١٨٥٢ء  اور  وفات: ١٩٢٩ء میں ہوئی، تیسری شخصیت سید نظر حسین صاحب مجتہد العصرپیدائش: ۱۴ربیع الثانی ١٢٦٨ھ مطابق ١٨٥٣ء    اور   وفات: ٢٨رجب ١٣٥٤ھ مطابق ١٩٣٩ء  ہے،آپ کے خاندان میں عارف وفیلسوف مولاناسید سجاد حسین رضوی کاایک اہم نام ہے، چوتھی شخصیت مولانا سید عابد حسین صاحب مجتہد العصرولادت: ١٢٨١ھ١٨٦٤ء   اور   وفات: ٢٧شعبان ١٣٢٧ھ١٩٠٩ء ہے، سرزمین بھیک پورکی پانچویں اوربرجستہ شخصیت زبدة الفقہاع عارف وفیلسوف مولانا سید علی سجاد طاب ثراہ  جو حجة الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمدرضوی کے نانا ہیں آپکی ولادت: ١٨٨٦ء  اور  وفات: ١٩٦١ء ، چھٹی شخصیت میں مولانا سید حفاظت حسین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کانام ہے جنہوں نے تحریری خدمات بہت زیادہ انجام دی آپکی پیدائش: ١دسمبر١٨٩٧ء    اور  وفات: ١٠ستمبر١٩٦٤ء ہے۔

بھیک کی سرزمین پرتمام محبان ہرعلاقے کی طرح بہت ہی دل وجان سے عزاداری کی جاتی ہے،یہاں کی عزاداری  میں ایک خاص بات ہے کہ ١٠محرم لحرام کوایک بہت بڑاتعزیہ امام حسین اٹھایاجاتاہے جسے ایشیا کا پہلا تعزیہ کہا جاتا ہے اکثر ممالک اس تعزیہ کو اٹھاتے ہوئے نشرکرتے ہیں،،اس تعزیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ شیعوں کے علاوہ،اہلسنت، ہندو ااوراکثرفرقے کے لوگ اسے کربلاتک لے جانے کے لئے انتھک کوشیشیں کیاکرتے ہیں،محرم آنے کے ٣ماہ قبل سے اسکی تیاریاں شروع ہوتی ہیں اورروز عاشورابچلا اوربڑاامام بارگاہ  سے ٢تعزیہ اٹھکر بھیک پور(میں بنے ہوئے) کربلا کی جانب ماتم نوحہ کرتے ہوئے لے جاتاجاتاہے،بڑاخاص اوردل کوہلانے والامنظرہواکرتاہے،یہ دوسوسالہ قدیم تعزیہ ہے،جو٩٢ فٹ اونچائی کابناہوتاہے،اسمیں ١٨محل ہوتے ہیں اور۱۶۴رساہوتاہے ہرمحل میں ۴ (طناب) رساہوتاہے جوہرمحل کے طناب میں۴ لوگ اسے اٹھاتے وقت لگے رہتے ہیں،اسے  امام بارگاہ سے کربلاکی جانب لے جانے والے ٢سوافرادمشغول رہتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے شیدائی اس دن کاخاص اہتمام کیاکرتے ہیں،مولاامام حسین علیہ السلام سبھی کی عزاداری کوقبول فرمائیں آمین ثم آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .